یہ سچ ہے کہ ہاتھوں میں ترا ہاتھ نہیں ہے
اس دل میں مگر درد کی بھتات نہیں ہے
میں اپنے مقابل ہی کھڑی سوچ رہی ہوں
کیوں تیرے تعاقب میں مری ذات نہیں ہے
کیا خوف کے عالم میں ہیں لپٹے ہوئے الفاظ
اک ایسی گھٹن ہے کہ زباں ساتھ نہیں ہے
سوچا ہے کہ تنہائی کے اس دشت میں رہ لوں
: تم ساتھ نہ بھی دو تو کوئی بات نہیں ہے
چبھتا ہے مجھے ڈوبتے سورج کا تصور
اس شام کی قسمت میں کوئی رات نہیں ہے
میں چاہوں تو ہو جائے مجھے جیت میسر
لیکن تری قسمت میں ابھی مات نہیں ہے
چلتے ہوئے منظر کا فسانہ ہے یہ وشمہ
جاتے ہوئے موسم کی تو سوغات نہیں ہے