میں اک نادان لڑکی وہ اک سنجیدہ شخص (پریم کہانی)
Poet: Maria Riaz Ghouri By: Maria Ghouri, HarooNAbdمیں غصے میں تیزی کرتی ہوں
وہ مزاج میں نرمی رکھتا ہے
میں بات بات پہ بھڑکتی ہوں
وہ ٹھنڈی آہیں بھرتا ہے
میں شوخ لاابالی
وہ سنجیدہ ہر پل رہتا ہے
میں اک نادان لڑکی
وہ سلجھی باتیں کرتا ہے
میں اک نادان لڑکی
لیکن وہ مجھ پہ مرتا ہے
میں اس کے نام لکھتی ہوں
وہ میرے نام لکھتا ہے
میں بار بار اظہار کرتی ہوں
وہ کبھی کبھی محبت جتاتا ہے
میں اک نادان لڑکی
لیکن وہ مجھ پہ مرتا ہے
میں اس سے پیار کرتی ہوں
وہ مجھ سے پیار کرتا ہے
یقین نہیں کرتے یہ لوگ
وہ مجھ پہ مرتا ہے
میرا راجا مجھے اپنی ملکہ بناتا ہے
دل کی سلطنت مرے نام کرتا ہے
مرا بچپنا سہتا ہے
بڑا ہونے کو کہتا ہے
میں جب رونے لگتی ہوں
پیار سے دیکھا کرتا ہے
مرے آنسوؤں کو ہتھیلی پہ سجاتا ہے
سرخ آنکھوں کو لالی کا حسن بتاتا ہے
میں اک نادان لڑکی
لیکن وہ مجھ پہ مرتا ہے
میں بے حد شوخیاں جھاڑتی ہوں
مری باتیں اس سنی کرتا ہے
میں بہت سوال پوچھتی ہوں
ہاں ہوں میں سر ہلاتا ہے
میں اس کو دیکھتی رہتی ہوں
وہ مجھ پہ ہنستا رہتا ہے
(ہاں میں اک نادان لڑکی
لیکن وہ اک سنجیدہ شخص۰)
خدا نے ہمیں ملایا
پریم کا روگ لگایا
میں اک نادان لڑکی
وہ اک سنجیدہ شخص. . . . . . . . . . .
میرے دل کو ہر لمحہ تیرے ہونے کا خیال آتا ہے
تیری خوشبو سے مہک جاتا ہے ہر خواب میرا
رات کے بعد بھی ایک سہنا خواب سا حال آتا ہے
میں نے چھوا جو تیرے ہاتھ کو دھیرے سے کبھی
ساری دنیا سے الگ تلگ جدا سا ایک کمال آتا ہے
تو جو دیکھے تو ٹھہر جائے زمانہ جیسے
تیری آنکھوں میں عجب سا یہ جلال آتا ہے
میرے ہونٹوں پہ فقط نام تمہارا ہی رہے
دل کے آنگن میں یہی ایک سوال آتا ہے
کہہ رہا ہے یہ محبت سے دھڑکتا ہوا دل
تجھ سے جینا ہی مسعود کو کمال آتا ہے
یہ خوف دِل کے اَندھیروں میں ہی رہتا ہے
یہ دِل عذابِ زمانہ سہے تو سہتا ہے
ہر ایک زَخم مگر خاموشی سے رہتا ہے
میں اَپنی ذات سے اَکثر سوال کرتا ہوں
جو جُرم تھا وہ مِری خامشی میں رہتا ہے
یہ دِل شکستہ کئی موسموں سے تَنہا ہے
تِرا خیال سدا ساتھ ساتھ رہتا ہے
کبھی سکوت ہی آواز بن کے بول اُٹھے
یہ شور بھی دلِ تنہا میں ہی رہتا ہے
یہ دِل زمانے کے ہاتھوں بہت پگھلتا ہے
مگر یہ درد بھی سینے میں ہی رہتا ہے
ہزار زَخم سہے، مُسکرا کے جینے کا
یہ حوصلہ بھی عجب آدمی میں رہتا ہے
مظہرؔ یہ درد کی دولت ہے بس یہی حاصل
جو دِل کے ساتھ رہے، دِل کے ساتھ رہتا ہے
دِل کو لاچار کر دیا گیا ہے
خواب دیکھے تھے روشنی کے مگر
سب کو اَنگار کر دیا گیا ہے
ہر سچ کہنے پر ہم بنَے دوچار
ہم کو دوچار کر دیا گیا ہے
ذِکرِ حَق پر ہوئی سزا اَیسی
خونِ اِظہار کر دیا گیا ہے
حوصلے ٹوٹنے لگے دِل کے
جِسم بیکار کر دیا گیا ہے
عَدل غائِب ہے، ظُلم حاکم ہے
خَلق سَرکار کر دیا گیا ہے
ہر طرف بڑھ رَہی ہیں دیواریں
راہ دُشوار کر دیا گیا ہے
اپنے تخلص سے کہہ رہا ہوں میں
مظہرؔ بےکار کر دیا گیا ہے
اگر دل ہے تو وفا یوں کر ملے دل کو سکوں دل سے
جفاکاروں٬فاداروں بتاؤ تو ہوا حاصل
بتایا تھا تمہیں بھی تو نہیں اچھا فسوں زن کا
بھلا ہی دی گئی چاہت ہماری سو وفا کو ہم
برا کہتے نہیں ہیں ہم مگر اچھوں کا یوں کرنا
دعا بھی ہے دوا بھی ہے شفا بھی ہے سزا بھی ہے
ملے تو ہے سکوں دل کو ملے نا تو جنوں دل کا
لٹا کر آ گیا ہوں میں سبھی اپنا متاع دل
ہمارے دامنوں میں اب نہیں کچھ بھی زبوں ہے دل






