کوئی پھول دو، کوئی خواب دو
میں بہت دنوں سے اداس ہوں
میری زیست کو آب و تاب دو
میں بہت دنوں سے اداس ہوں
کہ یہ انتظار کے ہیں سارے پل
ہیں عذاب جان بنے ہوئے
میرے خط کا کچھ تو جواب دو
میں بہت دنوں سے اداس ہوں
جسے پڑھ کر دل کو خوشی ملے
میرے سارے جذبات مہک اٹھیں
مجھے ایسی کوئی کتاب دو
میں بہت دنوں سے اداس ہوں
اسی عشق سے اسی چاہ سے
اسی پیار سے اسی مان سے
میرے ہاتھ میں اک گلاب دو
میں بہت دنوں سے اداس ہوں