میں تجھ کو پا کے بھی کچھ غم زدہ سا رہتا ہوں
کہ میرے چاروں طرف بھوک ہے بیماری ہے
ہیں نوجوان پریشاں بے روز گاری ہے
کہیں نشاط ہے ، عشرت ہے، جش کا ہے سماں
کہیں پہ لاشے ہیں غربت کے ،آہ و زاری ہے
گلی گلی میں سسکتی ہوئی حیات تو دیکھ
ہر ایک سمت غموں کی سیاہ رات تو دیکھ
قدم قدم پہ یہ بکتی ہوئی دوشیزائیں
یہ مفلسی کے کفن میں جواہرات تو دیکھ
یہ دیں کے نام پہ دنیا کمانے والے عیار
یہ حکمران یہ سرمایہ دار سب مکار
منافقت میں ہے ڈوبا ہوا سماج مرا
بدل یہ جائے نہیں اس کے کوئی بھی آثار
جہاں کے سامنے نظریں جھکائے بیٹھے ہیں
ہم اپنے ہاتھوں سے خود کو مٹائے بیٹھے ہیں
کریں کیوں غیر سے شکوہ کہ اپنے ہی ہیں عدو
ہم اپنے نفس کی عزت گنوائے بیٹھے ہیں
لٹا کے آدھا وطن اب بھی ہوش آیا نہیں
کہ ہم نے کوئی بھی حاکم تو ٹھیک پایا نہیں
نہ گیس ہے نہ ہی بجلی ہے دستیاب یہاں
نظام آج تلک تو کوئی بنایا نہیں
اسی لیے تو مری جان تجھ سے کہتا ہوں
میں تجھ کو پا کے بھی کچھ غم زدہ سا رہتا ہوں