میں تنہا نہیں رازداں اور بھی ہیں
ہیں مخلص مرے جان جاں اور بھی ہیں
بسر را ت اپنی کہیں کر لوں گا میں
مرے رہنے کو سائباں اور بھی ہیں
میں روز کرتا مسافت ہوں پیدل
مسافت کے میرے نشاں اور بھی ہیں
نہیں توں سنے گا یہ معلوم ہی ہے
مری سننے کو داستاں اور بھی ہیں
اکیلا نہیں میں چلا تیری جانب
مرے ساتھ تو رفتگاں اور بھی ہیں
مرا قافلہ سب سے چھوٹا ہے ان میں
مرے سے بڑے کارواں اور بھی ہیں
جہاں یہ ترا ہے مرا تو نہیں ہے
علاوہ ترے کے جہاں اور بھی ہیں
میں شہزاد اب پہلے جیسا نہیں ہوں
مرے دوست تو میزباں اور بھی ہیں