ہے بے کیفی رواں دورِ رواں سے
.سکونِ دل ملے گا اب کہاں سے
حرم کی نکہتیں تھیں روح پرور
نہ آیا باز دل عشقِ بُتاں سے
میں ذرہ ہوں پُجاری مہر کا ہوں
تعلق ہے زمیں کا آسماں سے
مجھے مے سے کوئی رغبت نہیں تھی
الجھنا تھا ذرا پیرِ مغاں سے
سہارا چاہیئے تیری نظر کا
میں خود نبٹوں کا مرگِ ناگہاں سے
شبِ ہجراں کی خاطر ہم بھی مفتی ؔ
ستارے چھین لیں گے آسماں سے