میں میں رہوں نہ تم تم رہو
Poet: درخشندہ By: Darakhshanda, Hustonتپتی ریت ہو صحرا ہو چمن کوتو گلوں پر نکھار چاہیے
لالہ زار کو خزاں میں بھی بہار کی باز گشت چاہیۓ
حسن ملیح ہو کہ صبیح پر من کو خوبرو ہی چاہیۓ
گو وصف دیکھنے کے لیۓ آیئنہ روبرو چاہیۓ
عبث پھرتے ہیں آہیں بھرتے ہیں انہیں دارو درمن چاہیۓ
صحرا کے دیوانوں کو بس اک چارہ گر مسیحا چاہیۓ
یوں تو ہرسوء ذی نفس کو ضمیر کی صدا چاہیۓ
تغا فل جو برتیں تو انہیں سر قلم کی سزا چا ہیۓ
گو محبت کے لیۓ تو صرف اک قلب ہی چا ہیۓ
غرق ہوں کسی کی چاہ میں تو پیار کا ساگر چاہیۓ
آسا ں نہیں عشق کے لیے تو اک عمر چاہیۓ
مورکھ مانگ لا تھوڑی سی اور گر عسق چاہیۓ
عشق میں پرستش کے لیۓ گھرنہیں مند ر چاہیۓ
اقرار نہیں محبت میں تو من کا اعتبار چاہیے
ڈھونڈ لا کوئ پیمانہ ایسا گر وفا کی پیما ئش
وگر نہ محبت کی آزما ئش کو بھی اک حد چاہیۓ
محبت ہو نہ ہو زندگی تو گزر ہی جاتی ہے
گھر بسانے کے لیۓ کچھ درگزر ہی تو چاہیۓ
میں میں رہوں نہ تم تم رہو وفا میں ایسا مقام چاہیۓ
گرحوصلہ نہیں تو پھرجا مجھکوبھی اپنا نام چاہیۓ
دِل کو لاچار کر دیا گیا ہے
خواب دیکھے تھے روشنی کے مگر
سب کو اَنگار کر دیا گیا ہے
ہر سچ کہنے پر ہم بنَے دوچار
ہم کو دوچار کر دیا گیا ہے
ذِکرِ حَق پر ہوئی سزا اَیسی
خونِ اِظہار کر دیا گیا ہے
حوصلے ٹوٹنے لگے دِل کے
جِسم بیکار کر دیا گیا ہے
عَدل غائِب ہے، ظُلم حاکم ہے
خَلق سَرکار کر دیا گیا ہے
ہر طرف بڑھ رَہی ہیں دیواریں
راہ دُشوار کر دیا گیا ہے
اپنے تخلص سے کہہ رہا ہوں میں
مظہرؔ بےکار کر دیا گیا ہے
اگر دل ہے تو وفا یوں کر ملے دل کو سکوں دل سے
جفاکاروں٬فاداروں بتاؤ تو ہوا حاصل
بتایا تھا تمہیں بھی تو نہیں اچھا فسوں زن کا
بھلا ہی دی گئی چاہت ہماری سو وفا کو ہم
برا کہتے نہیں ہیں ہم مگر اچھوں کا یوں کرنا
دعا بھی ہے دوا بھی ہے شفا بھی ہے سزا بھی ہے
ملے تو ہے سکوں دل کو ملے نا تو جنوں دل کا
لٹا کر آ گیا ہوں میں سبھی اپنا متاع دل
ہمارے دامنوں میں اب نہیں کچھ بھی زبوں ہے دل
فقیریہ ترے ہیں مری جان ہم بھی
گلے سے ترے میں لگوں گا کہ جانم
نہیں ہے سکوں تجھ سوا جان ہم بھی
رواں ہوں اسی واسطے اختتام پہ
ترا در ملے گا یقیں مان ہم بھی
تری بھی جدائ قیامت جسی ہے
نزع میں ہے سارا جہان اور ہم بھی
کہیں نہ ایسا ہو وہ لائے جدائ
بنے میزباں اور مہمان ہم بھی
کہانی حسیں تو ہے لیکن نہیں بھی
وہ کافر رہا مسلمان رہے ہم بھی
نبھا ہی گیا تھا وفاکو وہ حافظ
مرا دل ہوا بدگمان جاں ہم بھی
زِندگی جینے کی کوشش میں رہتا ہوں میں،
غَم کے موسم میں بھی خوش رہنے کی کرتا ہوں میں۔
زَخم کھا کر بھی تَبسّم کو سَنوارتا ہوں میں،
دَردِ دِل کا بھی عِلاج دِل سے ہی کرتا ہوں میں۔
وقت ظالم ہے مگر میں نہ گِلہ کرتا ہوں،
صبر کے پھول سے خوشبو بھی بِکھرتا ہوں میں۔
چاند تاروں سے جو باتیں ہوں، تو مُسکاتا ہوں،
ہر اَندھیرے میں اُجالا ہی اُبھارتا ہوں میں۔
خَواب بِکھرے ہوں تو پَلکوں پہ سَمیٹ آتا ہوں،
دِل کی ویران فَضا کو بھی سَنوارتا ہوں میں۔
کون سُنتا ہے مگر پھر بھی صَدا دیتا ہوں،
اَپنے سائے سے بھی رِشتہ نِبھاتا ہوں میں۔
دَرد کی لَوٹ میں بھی نَغمہ اُبھرتا ہے مِرا،
غَم کے دامَن میں بھی اُمید سجاتا ہوں میں۔
مظہرؔ اِس دَور میں بھی سَچ پہ قائم ہوں میں،
زِندگی جینے کی کوشَش ہی کرتا ہوں میں۔






