تپتی ریت ہو صحرا ہو چمن کوتو گلوں پر نکھار چاہیے
لالہ زار کو خزاں میں بھی بہار کی باز گشت چاہیۓ
حسن ملیح ہو کہ صبیح پر من کو خوبرو ہی چاہیۓ
گو وصف دیکھنے کے لیۓ آیئنہ روبرو چاہیۓ
عبث پھرتے ہیں آہیں بھرتے ہیں انہیں دارو درمن چاہیۓ
صحرا کے دیوانوں کو بس اک چارہ گر مسیحا چاہیۓ
یوں تو ہرسوء ذی نفس کو ضمیر کی صدا چاہیۓ
تغا فل جو برتیں تو انہیں سر قلم کی سزا چا ہیۓ
گو محبت کے لیۓ تو صرف اک قلب ہی چا ہیۓ
غرق ہوں کسی کی چاہ میں تو پیار کا ساگر چاہیۓ
آسا ں نہیں عشق کے لیے تو اک عمر چاہیۓ
مورکھ مانگ لا تھوڑی سی اور گر عسق چاہیۓ
عشق میں پرستش کے لیۓ گھرنہیں مند ر چاہیۓ
اقرار نہیں محبت میں تو من کا اعتبار چاہیے
ڈھونڈ لا کوئ پیمانہ ایسا گر وفا کی پیما ئش
وگر نہ محبت کی آزما ئش کو بھی اک حد چاہیۓ
محبت ہو نہ ہو زندگی تو گزر ہی جاتی ہے
گھر بسانے کے لیۓ کچھ درگزر ہی تو چاہیۓ
میں میں رہوں نہ تم تم رہو وفا میں ایسا مقام چاہیۓ
گرحوصلہ نہیں تو پھرجا مجھکوبھی اپنا نام چاہیۓ