مایوسی اور اک نئی امید کے ساتھ چاند نکلا
ہر دن کی طرح یہ دن بھی ویران نکلا
ُاس کی چوکھٹ پر میں کب تک بیٹھی رہوں
ہر آنے جانے والے کی نظر میں سوال نکلا
زمانے کو میں ُاسے اپنا بھی تو نہیں بتا سکتی
جس کے دل میں میرا لیکن زبان پر کسی اور کا نام نکلا
مت پوچھو میرے درد میں بہت سے درد ہیں شامل
میرا غم مٹانے والا تو فقط میرا خدا نکلا
توڑ دی قسم نجانے کس سوچ میں - میں نے
پھر بھی نکلا نا کچھ نتجاء سوائے دل پیشمان نکلا
میں نے ڈھونڈا بہت خود کو خود میں
میرے عکس ، بر عکس ، لہجے میں صرف ُاسی کا گمان نکلا
یہ بہار آئی ہے پھر سے وہی داستان لے کر
میں نے جب بھی کتاب کھولی ُاسی کا دیا گلاب نکل