میں نے دیکھا ہے تجھے
اپنی آنکھوں کے ایوانوں میں سجتے ہوئے خوابو ں کی طرح
کوئے شمس میں اُبھرتی ہوئی تیری ہنسی کا نشہ
میر ی شاموں کو اک نئی صبح بخشتا ہے
خشبوئے گلاب معتر کی طرح
میں نے سوچا ہے تجھے
اپنی چاہت کے عنوانوں میںِ جو حفظ رہے
دل کی دھڑکن زبان کی تسبیح میں
سانسوں میں پگلتے ہوئے نصابو ں کی طرح
میں نے چاہاہے تجھے
آنکھو ں سے روح کے اُجالوں میں،بنجر آ نکھوں کی زمیں کی طلب
مہکتی ہوئی گلاب خشبوؤ ں کی طرح
میں نے پوجا ہے تجھے
ایسے کہ جیسے شیدائی پھرے کوئی دیوانوں کی طرح
میں نے مانگا ہے تجھے
جیسے کوئی منتر ، کوئی جادو، بساطِ جان میں عظمتِ عشق کو اُجاگر کر دے
تو بھی ایسا دیوتا سا ہے ، میری دُنیا کے حسیں خوابوں کی طرح
میں نے عظمتِ عشق میں پوجا ہے تجھے
کہ تو فرض ہو چکا ہے مجھ پہ ایسے
تیرے بعد کچھ بھی شرک ہو جیسے
میں نے اپنی ذات کی ہر حد میں محسوس کیا ہے تجھے
شہ رگ سے گزرتی ہوئی سانسوں کی طرح