ُاسے اب بھی یقین نہ آئے تو کب آئے گا
میں نے زندگی گزار دی یہی سوچتے سوچتے
۔ ُاس نے تو فقط کہا ہی تھا - پھر کیوں
میں نے ہستی وار دی یہی سوچتے سوچتے
کہاں تک جاؤں منزلوں کے نشاں ڈھوتے
میں نے جیت - ہار دی یہی سوچتے سوچتے
لکی ُاس کے لیے میں نرم خاک ہی بن جاؤں
میں نے انا - ُاتار دی یہی سوچتے سوچتے
کبھی تو وہ لوٹائے گا میری وفا و محبت کو
میں نے ُادھار دی یہی سوچتے سوچتے
اب بھی نا پھول کھلے تو کیا کروں ؟
میں نے بہار دی یہی سوچتے سوچتے
شاید وہ سمجھ ہی جائے جو دل کو جاتی تھی
میں نے وہ تار دی یہی سوچتے سوچتے