میں نے لفظوں میں اُسکو ڈھونڈہ ہے
سب کتابوں میں اُسکو ڈھونڈہ ہے
بہت بیتاب ہو کے راتوں کو
چاند تاروں میں اُسکو ڈھونڈہ ہے
اُس کو پھولوں سے محبت تھی بہت
سب گلستانوں میں اُسکو ڈھونڈہ ہے
خود کو تنہا کیا زمانے سے
سب ویرانوں میں اُسکو ڈھونڈہ ہے
دیارِ غم میں میراحال ہوا ہے ایسے
دردِدل کی دھڑکنوں میں اُسکو ڈھونڈہ ہے
اب تو مجھکو بھی بھروسا نہیں رہا خود پر
خود کی سانسوں میں اُس کو ڈھونڈہ ہے
تمام خوابوں کی بھی تعبیر ہوا کرتی ہے
فقط اسی لیے خوابِ یوسفی میں اُسکو ڈھونڈہ ہے
عبدلؔ تیرے جینے کا اب مقصد نہیں رہا
تو خود کو چھوڑ آیا ہے۔ جہاں جہاں پر اُسکو ڈھونڈہ ہے