میں نے محبت کو مہاں جانا وہ مرض نہیں معیار ہے فقط
جنون بن گیا کوئی دھار انوکھی عشق الستی گنہگار ہے فقط
عیاں جرُم کے سب لہوُ لیئے ان سوداگروں کے پاؤ گری تھی
جہاں دوہرے دام پہ دل بکیں وہ بازار نہیں آزار ہے فقط
اک انجاں حسرت کے خاطر تو بھی شیریں سانس لے گئی
وہ سنگ ملن سنسار مانگے جیسے پیار بھی کوئی ادھار ہے فقط
ہوش میں پرجوش تھے کتنے کہ جان بھی قربان کریں گے
جو دل لیکر دغا کر جائے کہتے ہیں یہ سنسار ہے فقط
اس کو بھی کیا فطرت کہیں کہ ہر تصور میں آشنا تھے ہم
جس کو میں نے زندگی سمجھی وہ تو وقت کا گذار ہے فقط