میں نے کب درد کی زخموں سے شکایت کی ہے
ہاں میرا جرم ہے کہ میں نے محبت کی ہے
چلتی پھرتی لاشوں کو گلہ ہے مجھ سے
شہر میں رہ کر میں نے جینے کی حسرت کی ہے
آج پہچانا نہیں جاتا چہرا اس کا
اک عمر میرے دل پہ جس نے حکومت کی ہے
آج پھر دیکھا ہے اسے محفل میں پتھر بن کر
میں نے آنکھوں سے نہیں دل سے بغاوت کی ہے
اس کو بھول جانے کی غلطی بھی نہیں کر سکتا
ٹوٹ کر کی ہے تو صرف محبت کی ہے