میں نے ڈھونڈا اسے سُکھ کی طرح بھی
کہیں کیوں نہیں ملتا وہ دُکھ کی طرح بھی
اے غم روزگار تجھے کیسے پالیا ہے میں نے
کبھی پیاسا تو کبھی بُوکھ کی طرح بھی
تیری زلف کی شب سے اک چاند جو نکلا
چمکتا رہا حسیں حوُر کے مُکھ کی طرح بھی
اے دنیا والو میری جھونپڑی کو اب بچالو
چلی ہے ہوا یوں بے رُخ کی طرح بھی
موت کو بہانے دیتا گیا لیکن کیا پتہ کا
یونہی غم مار ڈالتا ہے گھُٹ کی طرح بھی