میں نے کہا وہ پیار کے رشتے
Poet: Sheikh Mudassar By: SANA KHAN, ATKمیں نے کہا وہ پیار کے رشتے نہیں رہے
کہنے لگی کہ تم بھی تو ویسے نہیں رہے
پوچھاگھروں میں کھڑکیاں کیوں ختم ہوگئیں؟
بولی کہ اب وہ جھانکنے والے نہیں رہے
پوچھا کہاں گئے مرے یارانِ خوش خصال
کہنے لگی کہ وہ بھی تمہارے نہیں رہے
اگلا سوال تھا کہ مری نیند کیا ہوئی؟
بولی تمہاری آنکھ میں سپنے نہیں رہے
پوچھا کروگی کیا جو اگر میں نہیں رہا؟
بولی یہاں تو تم سے بھی اچھے ، نہیں رہے
آخر وہ پھٹ پڑی کہ سنو اب مرے سوال
کیا سچ نہیں کہ تم بھی کسی کے نہیں رہے
گو آج تک دیا نہیں تم نے مجھے فریب
پر یہ بھی سچ ہے تم کبھی میرے نہیں رہے
اب مدتوں کے بعد یہ آئے ہو دیکھنے
کتنے چراغ ہیں ابھی ، کتنے نہیں رہے
میں نے کہا مجھے تری یادیں عزیز تھیں
ان کے سوا کبھی ، کہیں اُلجھے نہیں رہے
کیا یہ بہت نہیں کہ تری یاد کے چراغ
اتنے جلے،کہ مُجھ میں اندھیرے نہیں رہے
کہنے لگی تسلّیاں کیوں دے رہے ہو تم
کیا اب تمہاری جیب میں وعدے نہیں رہے
بہلا نہ پائیں گے یہ کھلونے حروف کے
تم جانتے ہو ہم کوئی بچّے نہیں رہے
بولی کریدتے ہو تم اُس ڈھیر کو جہاں
بس راکھ رہ گئی ہے ، شرارے نہیں رہے
پوچھا تمہیں کبھی نہیں آیا مرا خیال
کیا تم کو یاد یار پرانے نہیں رہے
کہنے لگی میں ڈھونڈتی تیرا پتہ ، مگر
جن پر نشاں لگے تھے ، وہ نقشے نہیں رہے
تیرے بغیر شہرِ سخن سنگ ہو گیا
ہونٹوں پہ اب وہ ریشمی لہجے نہیں رہے
جن سے اُتر کے آتی دبے پاؤں تیری یاد
خوابوں میں بھی وہ کاسنی زینے نہیں رہے
میں نے کہا ، جو ہو سکے ، کرنا ہمیں معاف
تم جیسا چاہتی تھیں ، ہم ایسے نہیں رہے
ہم عشق کے گدا ، تیرے در تک تو آ گئے
لیکن ہمارے ہاتھ میں کاسے نہیں رہے
اب یہ تری رضا ہے،کہ جوچاہے، سو کرے
ورنہ کسی کے کیا ، کہ ہم اپنے نہیں رہے
دِل کو لاچار کر دیا گیا ہے
خواب دیکھے تھے روشنی کے مگر
سب کو اَنگار کر دیا گیا ہے
ہر سچ کہنے پر ہم بنَے دوچار
ہم کو دوچار کر دیا گیا ہے
ذِکرِ حَق پر ہوئی سزا اَیسی
خونِ اِظہار کر دیا گیا ہے
حوصلے ٹوٹنے لگے دِل کے
جِسم بیکار کر دیا گیا ہے
عَدل غائِب ہے، ظُلم حاکم ہے
خَلق سَرکار کر دیا گیا ہے
ہر طرف بڑھ رَہی ہیں دیواریں
راہ دُشوار کر دیا گیا ہے
اپنے تخلص سے کہہ رہا ہوں میں
مظہرؔ بےکار کر دیا گیا ہے
اگر دل ہے تو وفا یوں کر ملے دل کو سکوں دل سے
جفاکاروں٬فاداروں بتاؤ تو ہوا حاصل
بتایا تھا تمہیں بھی تو نہیں اچھا فسوں زن کا
بھلا ہی دی گئی چاہت ہماری سو وفا کو ہم
برا کہتے نہیں ہیں ہم مگر اچھوں کا یوں کرنا
دعا بھی ہے دوا بھی ہے شفا بھی ہے سزا بھی ہے
ملے تو ہے سکوں دل کو ملے نا تو جنوں دل کا
لٹا کر آ گیا ہوں میں سبھی اپنا متاع دل
ہمارے دامنوں میں اب نہیں کچھ بھی زبوں ہے دل
فقیریہ ترے ہیں مری جان ہم بھی
گلے سے ترے میں لگوں گا کہ جانم
نہیں ہے سکوں تجھ سوا جان ہم بھی
رواں ہوں اسی واسطے اختتام پہ
ترا در ملے گا یقیں مان ہم بھی
تری بھی جدائ قیامت جسی ہے
نزع میں ہے سارا جہان اور ہم بھی
کہیں نہ ایسا ہو وہ لائے جدائ
بنے میزباں اور مہمان ہم بھی
کہانی حسیں تو ہے لیکن نہیں بھی
وہ کافر رہا مسلمان رہے ہم بھی
نبھا ہی گیا تھا وفاکو وہ حافظ
مرا دل ہوا بدگمان جاں ہم بھی
زِندگی جینے کی کوشش میں رہتا ہوں میں،
غَم کے موسم میں بھی خوش رہنے کی کرتا ہوں میں۔
زَخم کھا کر بھی تَبسّم کو سَنوارتا ہوں میں،
دَردِ دِل کا بھی عِلاج دِل سے ہی کرتا ہوں میں۔
وقت ظالم ہے مگر میں نہ گِلہ کرتا ہوں،
صبر کے پھول سے خوشبو بھی بِکھرتا ہوں میں۔
چاند تاروں سے جو باتیں ہوں، تو مُسکاتا ہوں،
ہر اَندھیرے میں اُجالا ہی اُبھارتا ہوں میں۔
خَواب بِکھرے ہوں تو پَلکوں پہ سَمیٹ آتا ہوں،
دِل کی ویران فَضا کو بھی سَنوارتا ہوں میں۔
کون سُنتا ہے مگر پھر بھی صَدا دیتا ہوں،
اَپنے سائے سے بھی رِشتہ نِبھاتا ہوں میں۔
دَرد کی لَوٹ میں بھی نَغمہ اُبھرتا ہے مِرا،
غَم کے دامَن میں بھی اُمید سجاتا ہوں میں۔
مظہرؔ اِس دَور میں بھی سَچ پہ قائم ہوں میں،
زِندگی جینے کی کوشَش ہی کرتا ہوں میں۔






