میں چلا گلستان جہاں دلفریب آواز آرہی تھی
دیکھا جو سامنے تو بیٹھی میرے گیت گا رہی تھی
مجھے دیکھ کے چمک اٹھیں تیری حسین نگاہیں
تو بازو وا کیے میری طرف آ رہی تھی
سوچا تجھے لے لوں اپنے بازوؤں کے حصار میں
مگر میرے دل کی دھڑکن بند ہوئی جا رہی تھی
تیری نظروں میں نظریں جو میں نے گاڑیں
تو قریب آ کر بھی مجھ سے شرما رہی تھی
تیرے حسیں رخسار پہ رکھ دیا رخسار میں نے
تیرے بدن سے مجھے پیار کی خوشبو آرہی تھی
خدایا ہم کو اسی حالت میں رکھنا تا ابد
جاوید نے بتایا پگلے تجھے تو خواب آرہی تھی