کسی کی یاد جو اتری ہے شبنمی بن کر
یہ کون رہتا ہے مجھ میں بھی اجنبی بن کر
یہ دل بہلتا نہیں تیرے بن بہاروں میں
میں ڈھونڈتی ہوں تجھے یار اجنبی بن کر
مری حیات میں اے رنگ بھرنے والے سن
میں بہہ رہی ہوں تری یاد میں ندی بن کر
مری نگاہ سے کیوں خود کو یوں چھپاتے ہو
"زمینِ خشک کو سیراب کر نمی بن کر"
تری جفا کے اندھیرے میں کیوں بکھر جاؤں
"کبھی تو آ مری آنکھوں کی روشنی بن کر "
جس اک خیال پہ لکھتے رہے ہیں ساحر و فیض
وہ اب خیال میں رہتے ہیں شاعری بن کر
ہمیشہ میں نے تری رب سے آرزو کی ہے
یہ زندگی میں لٹا دوں گی اب خوشی بن کر
جو میرے حال پہ شاداں تھے یہ کبھی وشمہ
وہ اشک آج بہے ہیں یہاں ندی بن کر