وہ اکثر کرتا ہے شگوہ میں کم بولتا ہوں
حسن کے دربار میں بے زبان سا ہو جاتا ہوں
شاید جانتا ہے میرے اندر بہت شور ہیں
شاید میں اسے سنتا ہی بہت ہوں
لفظوں میں اس کے میں خود کو تولتا ہوں
دیر کر دیتا ہوں اکثر جب اس کو سمجھتا ہوں
لفظ کچھ انمول سے اس کے لیے ڈھونڈتا ہوں
سچ ہے بہت کچہ کہنا بھول جاتا ہوں
حسن معصوم کااپنا ہے رعب جانتا ہوں
جب بھی لفظوں کو موتیوں سے پروتا ہوں
ہار جاتے ہیں پھر بھی لفظ مانتا ہوں
خان‘‘کر لو ہمت خود سے بس یہ کہتا ہوں