میں ہر روز اپنے دل کی تعمیر کرتی ہوں
شکستہ خواب جوڑ کے سعی تعبیر کرتی ہوں
گہرے سیاہ بدبختی کے بادل جو مجھے گھیر لیں
امید وں کے دیئے جلا کر روشن تقدیر کرتی ہوں
آزاد رو یہ سارے اشک قفس نظر کے قیدی
کمال ضبط سے انھیں پا بہ زنجیر کرتی ہوں
قریب مرگ پہنچنے لگے جب جب میری حیات
طویل میں کھرچ کے عمر کی لکیر کرتی ہوں
عظمٰی مجھے کوئی بھی میرے جیسا نہ ملا
میں خود کو اپنے آپ کی نظیر کرتی ہوں