میں ہی نہیں یہ روح بھی قائل ہے تیری
جانب شوق جنوں طبیعت مائل ہے میری
میرے کانوں میں رس گھولتی ہوئی اتری
وہ بارش کی نہیں آواز ہے پائل کی تیری
مجھے معلوم ہے کہ تیرا مزاج کیسا ہے
نہیں معلوم عادت کس طرف مائل ہے تیری
جسے شام و سحر یاد رکھا کہہ نہیں پائی
وہ ایک بات میرے درمیاں حائل ہے تیری
کوئی تسلیم کرے یا نہ کرے میرے رفیق
ایک میں ہی نہیں دنیا بھی قائل ہے تیری
کمال ضبط کا ثبوت مسکرا کے دے دیا عظمٰی
وگرنہ جسم نہیں روح بھی گھائل ہے تیری