نا آشنا عمر کی دہلیز چڑہ کر میں نے عذاب پینا سیکھ لیا ہے
عجیب بسے ہر آنکھ میں مئکدے میں نے شراب پینا سیکھ لیا ہے
خود کو دق بھی کرتا تو مزاج مجھے داؤ کے بیچ چڑہا دیتے
گمراہی کی مؤثر سرکشی میں ہر باب پڑہنا سیکھ لیا ہے
اب تم سے کچھ چھپی نہیں ہم نے قائم رکھی زندگی بھی کیسے
ادائے جرم میں غروب ہوکر ہر ذلالت کو ثواب دینا سیکھ لیا ہے
برہم کرتے تو بھی رنجشیں خوشیاں کہاں سے لے آتی
قلیل وحشت اور نَدامت شاید دنیا نے انصاف کرنا سیکھ لیا ہے
اس عاجزی کی ہر عدالت میں اگر اُجرت ملی بھی تو ایسے کہ
احراموں اور عبادت گاہوں سے گذر کر احتیاط کرناسیکھ لیا ہے
ان بالا نشینوں سے حق قدامت مانگنا جرم ہے سنتوشؔ
اتنی بیگانہ حالتوں میں بھی اب میں نے جینا سیکھ لیا ہے