تیرے ساتھ گزاری حسین شام نہ بُھول پاؤں گا
میں تیرے گلابی ہونٹوں کے جام نہ بُھول پاؤں گا
نشہ اب بھی ہے جو پیئے تھے میں لبِ جام
اُس رات کا لگا الزام نہ بُھول پاؤں گا
اُسے لگتا ہے کہ وقت گزاری کے لیے آئے تھے ہم
پاگل تیرے ساتھ بیتے لمہے تمام نہ بُھول پاؤں گا
یہ سچ ہے کہ تب شاید محبت نہ تھی تم سے
پر اب سے زندگی بھر تیرا نا م نہ بُھول پاؤں گا
تجھے محبت تھی مجھ سے میں ہی انجان تھا
فصلِ فراق اپنی نادانی کا ا نعام نہ بُھول پاؤں گا
مجھے اک مو قع دے اپنی غلطی سنوارنے کا
میں جیتے جی یہ اک کام نہ بُھول پاؤں گا
نہال آخری سانس پے ہے ا ب کے آجا تو جانم
مر کے بھی میں تیرے احسان نہ بُھول پاؤں گا