نا وہ کوئی شہزادہ تھا
Poet: AF(Lucky) By: AF(Lucky), Saudi Arabiaنا وہ کوئی شہزادہ تھا
نا لہجے میں کوئی مٹھاس تھی
نا معصوم لگتا تھا اداؤں سے وہ
نا کوئی دل لبہانے والی بات تھی
چہرہ بھی میرا طرح کا
آنکھیں بھی سیاہ تھی
سادہ سا لہجہ ،
لفظوں سے تلخی بیاں تھی
اوروں سے بہت
مختلف سی آواز
جو میرے دل میں ُاتر جاتی تھی
باتوں کو چھپانے میں ماہر تھا وہ
لیکن مجھ سے
چھپتی نا کوئی بات تھی
نا اظہار کرنے کا شوق تھا ُاسے
نا میری خامشی
برداشت تھی ُاسے
بچوں سا ضدی اور
غصے میں تو بس
خدا کی پناہ تھی
میں دور بھی جاؤں
تو ُاسے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا
ُاس کی زندگی میں
مصروفیت ہی دلدار تھی
آج کر دیا تعلق ترک دونوں نے
جیسے کبھی ہوئی
نا پیار کی کوئی بات تھی
سادہ سا وہ شخص
لیکن تعحجب ہیں لکی
کہ اک ُاسی کے بناء
میری زندگی محال تھی
کوئی سمجھ کر بھی
کیوں نا سمجھا
وہ دور سہی لیکن
میرے دل کی آُس کے دل سے
ُاس کے دل کی میرے دل سے راہ تھی
میرے دل کو ہر لمحہ تیرے ہونے کا خیال آتا ہے
تیری خوشبو سے مہک جاتا ہے ہر خواب میرا
رات کے بعد بھی ایک سہنا خواب سا حال آتا ہے
میں نے چھوا جو تیرے ہاتھ کو دھیرے سے کبھی
ساری دنیا سے الگ تلگ جدا سا ایک کمال آتا ہے
تو جو دیکھے تو ٹھہر جائے زمانہ جیسے
تیری آنکھوں میں عجب سا یہ جلال آتا ہے
میرے ہونٹوں پہ فقط نام تمہارا ہی رہے
دل کے آنگن میں یہی ایک سوال آتا ہے
کہہ رہا ہے یہ محبت سے دھڑکتا ہوا دل
تجھ سے جینا ہی مسعود کو کمال آتا ہے
یہ خوف دِل کے اَندھیروں میں ہی رہتا ہے
یہ دِل عذابِ زمانہ سہے تو سہتا ہے
ہر ایک زَخم مگر خاموشی سے رہتا ہے
میں اَپنی ذات سے اَکثر سوال کرتا ہوں
جو جُرم تھا وہ مِری خامشی میں رہتا ہے
یہ دِل شکستہ کئی موسموں سے تَنہا ہے
تِرا خیال سدا ساتھ ساتھ رہتا ہے
کبھی سکوت ہی آواز بن کے بول اُٹھے
یہ شور بھی دلِ تنہا میں ہی رہتا ہے
یہ دِل زمانے کے ہاتھوں بہت پگھلتا ہے
مگر یہ درد بھی سینے میں ہی رہتا ہے
ہزار زَخم سہے، مُسکرا کے جینے کا
یہ حوصلہ بھی عجب آدمی میں رہتا ہے
مظہرؔ یہ درد کی دولت ہے بس یہی حاصل
جو دِل کے ساتھ رہے، دِل کے ساتھ رہتا ہے
دِل کو لاچار کر دیا گیا ہے
خواب دیکھے تھے روشنی کے مگر
سب کو اَنگار کر دیا گیا ہے
ہر سچ کہنے پر ہم بنَے دوچار
ہم کو دوچار کر دیا گیا ہے
ذِکرِ حَق پر ہوئی سزا اَیسی
خونِ اِظہار کر دیا گیا ہے
حوصلے ٹوٹنے لگے دِل کے
جِسم بیکار کر دیا گیا ہے
عَدل غائِب ہے، ظُلم حاکم ہے
خَلق سَرکار کر دیا گیا ہے
ہر طرف بڑھ رَہی ہیں دیواریں
راہ دُشوار کر دیا گیا ہے
اپنے تخلص سے کہہ رہا ہوں میں
مظہرؔ بےکار کر دیا گیا ہے
اگر دل ہے تو وفا یوں کر ملے دل کو سکوں دل سے
جفاکاروں٬فاداروں بتاؤ تو ہوا حاصل
بتایا تھا تمہیں بھی تو نہیں اچھا فسوں زن کا
بھلا ہی دی گئی چاہت ہماری سو وفا کو ہم
برا کہتے نہیں ہیں ہم مگر اچھوں کا یوں کرنا
دعا بھی ہے دوا بھی ہے شفا بھی ہے سزا بھی ہے
ملے تو ہے سکوں دل کو ملے نا تو جنوں دل کا
لٹا کر آ گیا ہوں میں سبھی اپنا متاع دل
ہمارے دامنوں میں اب نہیں کچھ بھی زبوں ہے دل






