غافل کو ہے فطرت کے مکافات سے انکار
نادان کو ہے پیار کی سوغات سے انکار
جب اپنی نگاہوں کے سہارے کا ہے محتاج
پھر تجھ کو ہے کیوں خیر و کرامات سے انکار
مانا تری پرواز ہے افلا ک کے نزدیک
ہے تجھ کو مگر نوری مقامات سے انکار
دیوانہ صفت کی ہے شب و روز ریاضت
پھر بھی ہے تجھے اپنے ہی دن رات سے انکار
وہ عشق حقیقی کو نبھائے گا بھلا کیا
ہو جس کو مچلتے ہوئے جزبات سے انکار
مکتب میں تصوّف کے دریچوں کو ذرا کھول
کر پائے گا نا پھر تو مُناجات سے انکار
یہ سوچ کے آئی ہوں تری بزمِ سخن میں
وشمہ تجھے شاید ہو ملاقات سے انکار