نادان ہے تُو نہ یُوں اداہیں دکھایا کر،
دیوانہ نہ کوئی ہو جائے یُوں نہ مسکایا کر،
گلابی ہونٹ پھپا کے نقاب کے پیچھے
نگاہوں سے نہ تیر نظروں کے چلایا کر،
ترے حُسن کے طلبگار بہت ہے یہاں
یُوں نہ بن سنور کے باہر تُو آیا کر،
تری نظروں کو نظرِ بد نہ لگے کبھی
چاند سے چہرے پے کالا تل لگایا کر،
کل کی شکایت تری مجھ سے ستاروں نے
چاند چہرہ لے کے نہ چاند کے سامنے آیا کر،
بن ساون گرج جاتے ہیں بادل دیکھو
زلف کو نہ تم اپنے یُؤں لہرایا کر
گر سُننی ہو تجھے اپنے ہی حُسن کی تعریف
نہال کے پاس تُو شوق سے جایا کر،