جاناں
سنو! بڑے ناراض ہیں ہم تم سے
بڑے ناشاد ہیں تم سے
تمهیں شب و روز ہیں بہت سے کام
کبهی روزگار کے بہانے ہیں
کبھی دوستوں کے آستانے ہیں
کبھی روک لیتی ہیں تم کو موسم کی یہ سختیاں
پر یہاں ہر شے جامد ہے
یوں لگتا ہے کہ جیسے پریوں کی کہانی میں محل سو گیا ہے
وقت کا پہر ٹہر سا گیا ہے
اب تو
صرف
شہزادی کی آنکھیں ہیں اور ان میں بسے رت جگے
آجاو کہ اب روح پر زرد موسم طاری ہے
جیسے پت جھڑ میں پتے جهڑتے ہیں
ایسے ہی زندگی خزاں سی ہے
کہ اب تو خدارا! لوٹ آو
کہ ہم بڑے ناراض ہیں تم سے
بڑے ناشاد ہیں تم سے