محبت کے اس مقام سے ناراض بہت ہوں
ہوں مضطرب اور آرام سے ناراض بہت ہوں
لائے گی تیری یاد کو اور تڑپ سے
میں آنے والی شام سے ناراض بہت ہوں
گھر جاﺅں تو دِکھتی ہے ، ہر شے میں تُو ہی تُو
میں گھر کے در و بام سے ناراض بہت ہوں
تیری جھلک دِکھا کر پِلا دیتا ہے ہر بار
تیری طرح کے جام سے ناراض بہت ہوں
پٹڑی پہ بیٹھنے کا سبب ہو پوچھتے
زندگی کے ان ایام سے ناراض بہت ہوں
حالات میرے لِکھ دئیے دیکھو نا برملا
میں حاوی کے نام سے ناراض بہت ہوں