دل جو کسی سےمحبت کرنےسےباز ناآئے
نا جانےاس ضدی کوکیسےکوئی سمجھائے
آندھیوں میں جلا رکھا ہےامیدوں کاچراغ
کہ شاید بھولےسےوہ میرے گھر آئے
اس کی خاطر بیٹھے ہیں ہم پہرہ لگائے
اندھیری رات میں وہ کئی بھٹک نا جائے
میں جیتےجی سدا اس کا غلام رہوں گا
جو ایک بار مجھےاس یار سے ملائے
چل اصغر نارنگ بھائی سےپوچھتےہیں
شایدوہ اسےملنےکا بتاہیں کوئی اوپائے