دل کی زمیں پہ وقت کا نقشِ خزاں بھی ہے
اک نازک آئینہ ہوں، مگر آسماں بھی ہے
عشقِ حقیقی ہو کہ ہو دل کا فسانہ بس
اک درد ایسا ہے جو ہر دل میں جاں بھی ہے
یہ شہر تیرے لوگ، تری رسم و راہ ہے
گاؤں میں ہوتا تو فقط تُو مکاں بھی ہے
اک دل، اک نگاہ، اک ارادہ ہو بلند
یہی خزاں بھی ہو، یہی گلستاں بھی ہے
مزید کیا ہو نیلام عشق کی گلیوں میں
قیمت تری ہو، نام میرا نشاں بھی ہے
کچھ مجبوریاں ہیں، کچھ فکریں حیات کی
ورنہ یہ عشق فقط اک زیاں بھی ہے
زیست برائے زیست نہ ہو، بیداری ہو
ورنہ بدن تو ہر سو یہاں بھی ہے، وہاں بھی ہے