اب کے ان اشکوں کی روانی میں
بہہ گئے سارے خواب پانی میں
ہجر میں تیرے اب بھی زندہ ہیں
لوگ مر جاتے ہیں جوانی میں
درد سے واسطہ پرانا ہے
ان کو پالا ہے نو جوانی میں
روگ ایسا لگا جوانی میں
آیا ہی کیوں وہ زندگانی میں
پھول جس کو تو نے روندا تھا
میں نے رکھا تری نشانی میں
خط کو بھی اس کے کھا گئی دیمک
آخری تھا بچا نشانی میں
دکھ تمہارے سمیٹ لایا ہوں
اور کیا کرتا مہربانی میں
جس نے لوٹا بھری جوانی میں
نام اس کا ہے اس کہانی میں
لکھ رہا ہوں میں اپنی بربادی
نام تیرا بھی ہے کہانی میں
چند کردار اب بھی باقی ہیں
میری لکھی ہوئی کہانی میں
عقد کھلتا رہے گا آگے بھی
کون رہتے تھے بد گمانی میں
اس کو لکھنا تھا یہ نہیں بالکل
کیا سے کیا لکھ دیا روانی میں
ساری دنیا میں اک حسیں تم ہو
آج کرتا ہوں ترجمانی میں
آؤ مل جائیں اس طرح سے ہم
آگ لگ جائے آج پانی میں
دل پہ اب بھی تری حکومت ہے
آؤ اب اپنی راجدھانی میں
تم جو سوچو تمہاری مرضی ہے
تم تو رہتے ہو بد گمانی میں
تم نے جو چاہا سو کیا میں نے
اور کیا کرتا میری رانی میں
رات کی رانی کا کروں گا کیا
جان اٹکی ہے اپنی رانی میں
بھولتے کیوں نہیں اسے ارشیؔ
خوش ہے وہ اپنی زندگانی میں