ذکر تو نے محبت کا کبھی ہم سے کیا ہوتا
خود سے بھی نکلنے کا ہمیں موقعہ دیا ہوتا
بھرا ہوتا ستاروں سے حسرتوں کے سمندر سے
ذکر تو نے سنگدل اک بار مجھ سے جو کیا ہوتا
چُرا کر میں تجھے تجھ سے خود میں چھپا لیتا
ملا ہوتا مجھے تو بھی تجھے میں بھی ملا ہوتا
دور ہوتا چاہتوں کا ہر رنگ میں وفا بوتی
مجھے تیری نگاہ نے کچھ اور بھی کہا ہوتا
بھول جاتا زمانے کو اُلفت کے سہارے میں
ہاتھ میرے ہاتھ میں جو اگر تو نے دیا ہوتا
خوابوں میں تجھے دیکھوں حقیقت میں تجھے چاہوں
نام تیرا کاش ہاتھ کی لکیروں میں لکھا ہوتا