نام قاتل کا سرمقتل بتایا نہیں جاتا
ہاں ناوءک پشت پہ چلایا نہیں جاتا
اس قدر تنگ ہے یہ کوءچہ عشق
مڑ نہیں پاتے ،واپس آیا نہیں جاتا
پتھر پڑے سر پر تبھی معلوم ہوا
پتھروں کو خدا بنایا نہیں جاتا
ہر رات شبِ وصل ،اچھا ہے مگر
کیوں ڈر ہجر کا سایہ نہیں جاتا
رات شاید تمھی آءے تھے کہ کوئی اور
کھول کے یوں تو دروازہ نہیں جاتا
داستان اب یوں ختم کرتے ہیں آج فرہاد
کدال ہاتھوں میں نہیں ، قلم اٹھایا نہیں جاتا