سنگ باری کے بھی اسباب نکل آتے ہیں
" بعض پتھر بڑے نایاب نکل آتے ہیں"
جب بھی جاتا ہوں کبھی اپنے پرانے گھر میں
میں نے دفنائے تھے جو خواب نکل آتے ہیں
جب بھی سوچا کہ کبھی بھی نہ ملوں گا ان سے
ان سے ملنے کے کچھ اسباب نکل آتے ہیں
جب بھی دیکھا ہے پسِ پردہ تو دشمن سارے
میرے اپنے سبھی احباب نکل آتے ہیں
تو نے سمجھا تھا کہ پتھر کی کوئی مورت ہوں
میری آنکھوں سے بھی سیلاب نکل آتے ہیں