نجانے بے وفاؤں پہ ہی کیوں مہربان ہوتا ہے
یہ عشق بے وفاؤں کا ہی راز دان ہوتا ہے
جب عشق ہوتا ہے تو یہ تہذیب چلتی ہے
سر سجدے میں جھکا ، ہاتھوں میں قرآن ہوتا ہے
لاکھ دعاؤں ، روزوں سے نہیں ہوتا جناب!
وصال تبھی ملتا ہے جب راضی رحمان ہوتا ہے
ترے ہجر کا مصور یوں میری تصویر بناتا ہے
خاموشیوں میں ڈوبا ہوا جیسے قبرستان ہوتا ہے
میں جس جگہ بھی ہوتا ہوں تجھے سوچتا ہوں
تجھے یاد کرتا ہوں تجھی میں دھیان ہوتا ہے
تجھ سے جب دل دور جاتا ہے پل بھر کو
بھوکے پیاسے غریب کی مانند پریشان ہوتا ہے
نہال جس کی سنتے ہوئے اُکتا جاتے ہیں ستارے
باتوں کا سر چشمہ ترے آگے بے زبان ہوتا ہے