میں چاہ کے بھی فراموش درد کر نہ سکا
زباں کا زخم جو تو نے دیا وہ بھر نہ سکا
خیال و خواب کی دنیا میں کھو کے کیا پایا
بگڑ کے اپنا مقدر تو یوں سنور نہ سکا
فریب دینے کی نیت تھی آج پھر اس کی
ثبوت ایسا تھا وہ بات سے مکر نہ سکا
وہی تو شخص ہے عنوان میرے شعروں کا
غموں کو سہتا ہے اور چاہ کے بھی مر نہ سکا
نجانے رات برستی رہی کہاں شبنم
پڑی ہے دھول کوئی پھول بھی نکھر نہ سکا
مرے وجود پہ زاہد خدا کا ہاتھ رہا
ہوائیں لاکھ چلیں غم کی میں بکھر نہ سکا