ایسا نہیں کہ ان کی ضرورت نہیں مجھے
ملنے کی ان سے اب تک اجازت نہیں مجھے
اس کا تھا فیصلہ یوں جدا ہم جو ہو گئے
اپنے کسی عمل پہ ندامت نہیں مجھے
کچھ دوریاں ہوئی ہیں مگر عارضی ہیں سب
ایسا نہیں کہ ان سے محبت نہیں مجھے
کرتی ہے جانے کس کا گلہ بار بار وہ
سونپی تھی کوئی بھی تو امانت نہیں مجھے
وعدہ رہا نہ توڑوں گا کوئی بھی قسم
جھوٹا کروں میں وعدہ یہ عادت نہیں مجھے