قسمت کو آزمانے پھر سے سنبھل کے چل
دنیا کے سامنے اب چہرا بدل کے چل
پائے گا خود کو اپنی منزل کے پاس اک دن
نرغے سے رہبروں کے تنہا نکل کے چل
ہے آگ زندگانی یہ بات تو سمجھ لے
انگاروں پر تو اسکے ائے دوست جل کے چل
روکی ہوئی ہیں راہیں دنیا نے منزلوں کی
رخسار پر تو اپنے اشکوں میں ڈھل کے چل
منزل کے راستے میں بیٹھے ہوئے ہیں رہزن
ائے شوق آرزو اپنی راہیں بدل کے چل
دل جو بھٹک گیا ہے اس کا سبب یہ ہی ہے
کس نے کہا تھا تجھ سے تو یوں مچل کے چل
رستے کی سختیوں کی مت فکر کر تو عارف
پتھر سے موم بن جا اور تو پگھل کے چل