مجھے آج بھی یاد ہیں تری مستیاں آگوش میں
شبِ مہتاب میں تری جاناں! شوخیاں آگوش میں
کیسے دل سے اپنے میں نکال دُوں یادیں بیتے پلوں کی
ماہِ دسمبر کی بارشیں وہ سردیاں آگوش میں
دل میں ڈر کی کروٹیں فکرِ جدائی تری بے چینیاں
فراق کا ڈر اور تری پریشانیاں آگوش میں
لبوں سے شربتِ حُسن کو ترے پی لیا نہال نے
نشہ سا شراب جیسا ہے تری انگڑائیاں آگوش میں