نظاروں میں کہیں مہوشیں روز کہ نہیں آتی
تیرے حسُن کی یہی جُیوُشیں روز کہ نہیں آتی
کبھی کبھی دل چاہتا ہے کہ بھٹکنے کو چلیں
ورنہ ایسی بے جا حسرتیں روز کہ نہیں آتی
ابکہ بار اس دامن کو تھوڑا بھگوکے دیکھتے ہیں
اپنی جلن پر یہ بارشیں روز کہ نہیں آتی
اس خلش کو کسی نے شاید اپنی نظر سے دیکھا
چلو ایسی خیالوں میں کاوشیں روز کہ نہیں آتی
میری سوچ کے فساد کو بہلا بھی سکتے تو
مزاج شائستگی میں یہ سازشیں روز کہ نہیں آتی
آج موسم سنتوشؔ تھوڑا اداس سا لگتا ہے
ورنہ اُسی رُخ پہ رنجشیں روز کہ نہیں آتی