نظر میں تم ھو سمائے نظارہ ھو نہیں سکتا
تیری محفل میں بیٹھے ہیں اشارہ ھو نہیں سکتا
میں کیسے مان لوں کہ تو وفاؤں کا بھرم رکھ لے
جو خود ٹوٹا ھو ڈالی سے وہ سہارا ھو نہیں سکتا
تیرے وعدوں پہ ھم رہتے تو کب سے مر گئے ھوتے
سفر میں چھوڑ جائے جو وہ کنارا ھو نہیں سکتا