نظر دیکھتے ہیں جگر دیکھتے ہیں
تجھے ہر طرف جلوہ گر دیکھتے ہیں
وہ ہنس کر ادا سے جدھر دیکھتے ہیں
زمانے کو زیر و زبر دیکھتے ہیں
یہی ہیں جو خود بینیاں تو تمہیں کو
لگے گی تمہاری نظر دیکھتے ہیں
رہی جب نہ پاؤں اٹھانے کی طاقت
کھلے آج زنداں کے در دیکھتے ہیں
کہیں آ بھی او صبح امید عالم
تری راہ مرغ سحر دیکھتے ہیں
پلٹ کر وہ آئے ہیں میت سے میری
یہی خواب ہم رات بھر دیکھتے ہیں
جو ممکن نہیں تیرے در تک رسائی
تو بیٹھے تری رہ گزر دیکھتے ہیں
کہیں باغ میں گر بھڑکتے ہیں شعلے
تو گھبرا کے ہم بال و پر دیکھتے ہیں
چمکتے ہیں جب آسماں پر ستارے
تو ہم اپنے داغ جگر دیکھتے ہیں