نظر کی دھند میں دل کا غبار رہنے دو
بچھڑنے والے کوئی تو ادھار رہنے دو
طناب گردش ایام تھام کے رکھنا
ہوں محو رقص، درون مدار رہنے دو
تم اپنے دل کے جزیرے پہ خوش رہو آباد
مجھے انا کے سمندر کے پار رہنے دو
اداسیوں سے کہو میرے دل میں گھر کر لیں
تم اپنے حسن کو باغ و بہار رہنے دو
بھلے نظر کے چراغوں کی روشنی لے لو
بس اک رمق اے اجل، انتظار رہنے دو
محبتوں میں کہاں رکھ رکھاو اب شاہد
رقابتوں میں ہی تھوڑا وقار رہنے دو