نظروں کے کھیل میں دل ہار بیٹھے ہیں
اِک حسین مُورت سے کر پیار بیٹھے ہیں
نظروں سے ملی نظر تو جادو جگا
نظروں سے پیار کا کر اقرار بیٹھے ہیں
مسکرا کے جب دیکھا پیار سے اُس نے
دل کو یارو کر بے قرار بیٹھے ہیں
مدہوش عالم ہوگا پھر سارا
ایسے چہرے کا کر دیدار بیٹھے ہیں
جب بھی اُس کے خیال سے الگ بیٹھوں
ایسا لگتا ہے جیسے بے کار بیٹھے ہیں
نظروں سے نظر ملتے ہی صدائیں آئی
چھیڑ ہم تو دلوں کے تار بیٹھے ہیں
اب خدا جانے انجام کیا ہو گا
عشق کے ہو کے ہم گناہگار بیٹھے ہیں
نہال مت پوچھو اب حالِ دل
جب سے نظریں کر دو چار بیٹھے ہیں