نظم وشمہ نے جو کہی ہے ابھی
باغ اردو میں اک کلی ہے ابھی
ذکر رہتا ہے جن کا شعروں میں
تیرے ہونٹوں کی نازکی ہے ابھی
چاند نکلا تو میں بھی نکلوں گی
شام یادوں کی اک ڈھلی ہے ابھی
رنگ پکنے میں دیر لگتی ہے
اپنی چاہت تو موسمی ہے ابھی
مجھ کو غیروں کے ساتھ رہنا ہے
اپنے لشکر سے دشمنی ہے ابھی
زندگانی ہے درد کا محور
آزمائش میں دوستی ہے ابھی
عشق اترے گا ایک دن وشمہ
ان نگاہوں میں سادگی ہے ابھی