نغمہ کوئی ابھرتا ہے پیڑوں کی چھاؤں سے
کرتے ہیں جب بھی بات پرندے ہواؤں سے
ویسے تو سخت جان تھے بستی کے سارے لوگ
مائل کیا ہے اس نے بھی اپنی اداؤں سے
دشمن کو اب میں اپنی جلو میں چلاؤں گی
دھوکے تو کھا لیے ہیں بہت ہم نواؤں سے
میرا یہ مشغلہ ہے جوانی کی راہ میں
ملتی ہوں میں تپاک سے اب بےوفاؤں سے
نکلی تو ہوں میں دشت کی جانب بہ وقتِ شام
محفوظ رب کی ذات رکھے گی بلاؤں سے
میرے وطن میں خوف کا پہرہ ہے آج کل
مشکل یہ ٹل ہی جائے گی وشمہ دعاؤں سے