نغمے تو رکھ لئے ہیں ساز بیچتے ہو
تم کیسے راز داں ہو راز بیچتے ہو
سماعت منتظر ہے میری جانے کب سے
تم ہو کہ خاموشیوں کی آواز بیچتے ہو
بھری محفل میں غرور ہے یہ کیسا
کیا نازاں ہو اس پر تم کہ ناز بیچتے ہو
دیوانے ہو اگر تو صحرا سے رکھ آشنائی
کیوں محبتوں کے انداز بیچتے ہو
بزم سے تیری نکلا ہوں تو کیوں اب
بہانے ڈھونڈتے ہو جواز بیچتے ہو
مظہر حیران ہوں کہ جیون سمیٹ کر
اب کیوں دعائے عمر دراز بیچتے ہو