نفرت ہی نفرت ہر دل میں بس گئی
ناجانے کونسی ناگن ہر بشر کو دَس گئی
قتل و گھارت ، بے حیائی عروج پے پہنچی
کس کم بخت کی نظر میرے شہر کو لگ گئی
خود ہی کی نظروں سے اتنا گِر گئے ہم
خاک بھی طنزیاں دیکھ کے میری طرف ہنس گئی
محبت ٹھنڈی پڑ گئی میرے شہر والوں کی
کہ نفرت سورج کے جیسے بہت ہی تَپ گئی
اب کون سمجھائے گا عقلمندں کو آکے
خدائی بھی سمجھا سمجھا کے اب تو تھک گئی
نہال ؔ جی کاش پرانی محبتیں لوٹ آئے مڑ کے
نفروں کے ڈر سے جو جو بھاگ پس گئی