وحشت میں آ کے چومے نقش قدم تمہارے
اشکوں کے قافلے ہیں روتے ہیں سب ستارے
بڑھتی گئیں تلخیاں مہ نوشی کے جنوں میں
احساس تب ہوا جب چھوٹے سب سہارے
سوزو فراق کا موسم دیپک بھی بجھ گئے ہیں
اس حبس بے وجہ میں اب کون زلف سنوارے
نگاہوں میں آج بھی ہیں وہ رنگ و بو کی گلیاں
دل بھولتا نہیں ہے فرصت کے وہ نظارے
مجنوں سی کیفیت ہے اور دھر میں ٹھکانہ
عاشق تیری نظر کے صحرا میں تجھے پکارے
تیری خاموشیوں کا حسن آنکھوں سے بولتا تھا
تیری ہر ادا کے جلوے ہمیں جان سے تھے پیارے