نقش پتھر ہیں کچھ تو رسامی کو ڈھونڈو
عشق تو کہتا ہے اکثر کہ الہامی کو ڈھونڈو
یہ زمانہ تو ہر جگہ دامن گیری مانگتا ہے
تجھے کس نے کہا کہ اس ابہامی کو ڈھونڈو
ان صحراؤں میں بڑے اندھیرے دکھتے ہیں
روشنی کی بھی عبث اِس گمنامی کو ڈھونڈو
خردسالی سے شفقت کی کوئی رمز بھی نہیں
اُس بے پدر پہ جو ہوئی مہربانی کو ڈھونڈو
سرکشی پر جاکے کس کا سکوں نہ چھیڑو
گر ضد بھی لگے تو زندگانی کو ڈھونڈو
جو غرض آشنائی میں کچھ قدم چلے تھے
پھر کیا ہوا سنتوشؔ اُس کہانی کو ڈھونڈو