نقشِ جاناں نے دھوم مچا رکھی ہے ،
دل کی دیوار پر ، ہر ایک نے ، اک تصویر سجا رکھی ہے
ہر اک رقصاں ہے ، اپنی ہی دھن میں پربت کے قریب
کسی نے درد دنیا کو،کسی نے متاع دنیا کو اپنی لیلا بنا رکھا ہے
کون کس سمت ہے ،کس زوق میں! آرزوئے خیال میں مست
ہم سب نے ایک نہ اک زنجیر ، پاوں میں سجا رکھی ہے
ہم تو خاک ہوۓ ،دھول ہوۓ، دل کے جوبن میں
اس ویراں جگہ میں یہ کس نے آتش جلا رکھی ہے ؟
کہیں جو خزاں آئ ، تو درد ہوا ،باغباں کے پھولوں کو
کہیں یورش ، کہیں درد نے کس قدر دھوم مچا رکھی ہے
اب تو یہ حال ہے کہ کوئ ،حال ہی نہیں
اب تو یہ بات ہے کہ کوئ ،بھی بات نہیں
لفظ رقصاں ہیں خود اپنے ہی دروازے پر
آسماں نے پھر کیوں بارش برسا رکھی ہے؟
کبھی جو دور کسی سناٹے سے آہ و زاری سنی
تو دل پر غموں کی بھی خوب آمد جاری ہوئ
خوشحال چہروں کو جو دیکھا سعدیہ، دکھ ہوا !
کس قدر حالت اپنی زمانے سے چھپا رکھی ہے